تو ہاتھ کو جب ہاتھ میں لے لیتی ہے
تو ہاتھ کو جب ہاتھ میں لے لیتی ہے دکھ درد زمانے کے مٹا دیتی ہے سنسار کے تپتے ہوئے ویرانے میں سکھ شانت کی گویا تو ہری کھیتی ہے
تو ہاتھ کو جب ہاتھ میں لے لیتی ہے دکھ درد زمانے کے مٹا دیتی ہے سنسار کے تپتے ہوئے ویرانے میں سکھ شانت کی گویا تو ہری کھیتی ہے
مکھڑا دیکھیں تو ماہ پارے چھپ جائیں خورشید کی آنکھ کے شرارے چھپ جائیں رہ جانا وہ مسکرا کے تیرا کل رات جیسے کچھ جھلملا کے تارے چھپ جائیں
پریمی کو بخار اٹھ نہیں سکتی ہے پلک بیٹھی ہے سرہانے ماند مکھڑے کی دمک جلتی ہوئی پیشانی پہ رکھ دیتی ہے ہاتھ پڑ جاتی ہے بیمار کے دل میں ٹھنڈک
سر تا بہ قدم رخ نگاریں ہے کہ تن ہیں عضو حسیں کہ بول اٹھنے کو دہن یہ مستی و کیف یہ جماہی یہ جھپک اک ادھ کھلی نرگس خماریں ہے بدن
اے روپ کی لکشمی یہ جلووں کا راگ یہ جادوئے کام روپ یہ حسن کی آگ خیر و برکت جہان میں تیرے دم سے تیری کومل ہنسی محبت کا سہاگ
ہر جلوہ سے اک درس نمو لیتا ہوں لبریز کئی جام و سبو لیتا ہوں پڑتی ہے جب آنکھ تجھ پر اے جان بہار سنگیت کی سرحدوں کو چھو لیتا ہوں
غنچے کو نسیم گدگدائے جیسے مطرب کوئی ساز چھیڑ جائے جیسے یوں پھوٹ رہی ہے مسکراہٹ کی کرن مندر میں چراغ جھلملائے جیسے
کہتی ہیں یہی تیری نگاہیں اے دوست نکلیں نئی زندگی کی راہیں اے دوست کیوں حسن و محبت سے نہ اونچے اٹھ کے دونوں اک دوسرے کو چاہیں اے دوست
مہتاب میں سرخ انار جیسے چھوٹے یا قوس قزح لچک کے جیسے ٹوٹے وہ قد ہے کہ بھیرویں سنائے جب صبح گل زار عشق سے نرم کونپل پھوٹے
جب چاند کی وادیوں سے نغمے برسیں آکاش کی گھاٹیوں میں ساغر اچھلیں امرت میں دھلی ہوئی رات اے کاش ترے پائے رنگیں کی چاپ ایسے میں سنیں