ملیے اس شخص سے جو آدم ہووے
ملیے اس شخص سے جو آدم ہووے ناز اس کو کمال پر بہت کم ہووے ہو گرم سخن تو گرد آوے یک خلق خاموش رہے تو ایک عالم ہووے
ملیے اس شخص سے جو آدم ہووے ناز اس کو کمال پر بہت کم ہووے ہو گرم سخن تو گرد آوے یک خلق خاموش رہے تو ایک عالم ہووے
راضی ٹک آپ کو رضا پر رکھیے مائل دل کو تنک قضا پر رکھیے بندوں سے تو کچھ کام نہ نکلا اے میرؔ سب کچھ موقوف اب خدا پر رکھیے
مستی نہ کر اے میرؔ اگر ہے ادراک دامان بلند ابر نمط رکھ تو پاک ہے عاریتی جامۂ ہستی تیرا ہشیار کہ اس پر نہ پڑے گرد و خاک
آئی نہ کبھو رسم تلطف تم کو کرتے نہ سنا ہم پہ تاسف تم کو مرتے ہیں ہم اور منھ چھپاتے ہو تم ہم سے اب تک بھی ہے تکلف تم کو
دل خون ہوا ضبط ہی کرتے کرتے ہم ہو ہی چکے دکھوں کو بھرتے بھرتے اے مایۂ زندگی ستم ہے نہ اگر بھر آنکھ تجھے دیکھیں نہ مرتے مرتے
ہم سے تو بتوں کی وہ حیا کی باتیں وہ طرز کلام اس ادا کی باتیں دیکھیں قرآں میں فال غیروں کے لیے کیا ان سے کہیں یہ ہیں خدا کی باتیں
ہم میرؔ سے کہتے ہیں نہ تو رویا کر ہنس کھیل کے ٹک چین سے بھی سویا کر پایا نہیں جانے کا وہ در نایاب کڑھ کڑھ کے عبث جان کو مت کھویا کر
پرپیچ بہت ہے شکن زلف سیاہ وارفتہ نہ رہ اس کا دلا بے گہ و گاہ دیوانگی کرنے کی جگہ بھی ٹک دیکھ جا ملتی ہے یہ کوچۂ زنجیر میں راہ
اک وقت تھے ہم بھی خوش معاشی کرتے ہر نالے سے اپنے دل خراشی کرتے آتے جو کبھو ادھر کو سنتے اس کو ہم گریے سے اپنے آبپاشی کرتے
دل جان جگر آہ جلائے کیا کیا درد و غم و آزار کھنچائے کیا کیا ان آنکھوں نے کی ہے ترک مردم داری دیکھیں تو ہمیں عشق دکھائے کیا کیا