بھیجی ہے جو مجھ کو شاہ جمجاہ نے دال
بھیجی ہے جو مجھ کو شاہ جمجاہ نے دال ہے لطف و عنایت شہنشاہ پہ دال یہ شاہ پسند دال بے بحث و جدال ہے دولت و دین و دانش و داد کی دال
بھیجی ہے جو مجھ کو شاہ جمجاہ نے دال ہے لطف و عنایت شہنشاہ پہ دال یہ شاہ پسند دال بے بحث و جدال ہے دولت و دین و دانش و داد کی دال
دل تھا کہ جو جان درد تمہید سہی بیتابی رشک و حسرت دید سہی ہم اور فسردن اے تجلی افسوس تکرار روا نہیں تو تجدید سہی
اے کثرت فہم بے شمار اندیشہ ہے اصل خرد سے شرمسار اندیشہ یک قطرۂ خون و دعوت صد نشتر یک وہم و عبادت ہزار اندیشہ
مشکل ہے زبس کلام میرا اے دل سن سن کے اسے سخنوران کامل آساں کہنے کی کرتے ہیں فرمایش گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل
سامان خور و خواب کہاں سے لاؤں آرام کے اسباب کہاں سے لاؤں روزہ مرا ایمان ہے غالبؔ لیکن خس خانہ و برفاب کہاں سے لاؤں
یہ سلسلۂ زلف تجسس ہے دراز انجام کہاں سے؟ کہ ابھی ہے آغاز تشکیک کے ہونے میں کوئی حرج نہیں لیکن نہ یہ 'انکار' کا ہو جائے جواز
تعمیر کو تخریب سے ملتا ہے کمال تخریب ہی تعمیر کا ورنہ ہے مآل تشکیک کی بنیاد پہ قائم جو نہ ہو دل میں وہ یقیں بنتا ہے تشکیک کے جال
دے جس کو شراب ناب پانی کا مزا کیا خاک ہے اس کو زندگانی کا مزا اے جان جوانی وہ جواں مرگ مری تجھ بن ہو ذرا جیسے جوانی کا مزا
جو کوئی کہ آفت نہانی مانگے اور ملک عدم کی کچھ نشانی مانگے دکھلا دے اسے تو اپنی شمشیر نگاہ جس کا مارا کبھی نہ پانی مانگے
کیا کیا اے عاشقی ستایا تونے کیسا کیسا ہمیں کھپایا تونے اول کے سلوک میں کہیں کا نہ رکھا آخر کو ٹھکانے ہی لگایا تونے