دل خوں ہے جگر داغ ہے رخسار ہے زرد
دل خوں ہے جگر داغ ہے رخسار ہے زرد حسرت سے گلے لگنے کی چھاتی میں ہے درد تنہائی و بیکسی و صحراگردی آنکھوں میں تمام آب منھ پر سب گرد
دل خوں ہے جگر داغ ہے رخسار ہے زرد حسرت سے گلے لگنے کی چھاتی میں ہے درد تنہائی و بیکسی و صحراگردی آنکھوں میں تمام آب منھ پر سب گرد
اب صوم و صلوٰۃ سے بھی جی ہے بیزار اب ورد وظائف سے کیا استغفار عقدے نہ کھلے دل کے بسان تسبیح اسماے الٰہی بھی پڑھے سو سو بار
اتنے بھی نہ ہم خراب ہوتے رہتے کاہے کو غم و الم سے روتے رہتے سب خواب عدم سے چونکنے کے ہیں وبال بہتر تھا یہی کہ ووہیں سوتے رہتے
آب حیواں نہیں گوارا ہم کو کس گھاٹ محبت نے اتارا ہم کو دریا دریا تھا شوق بوسہ لیکن جاں بخش لب یار نے مارا ہم کو
دنیا میں بڑا روگ جو ہے الفت ہے دق آگئے ہیں جی سے بھی یہ زحمت ہے کہتے تھے کہ میرؔ بے وفا ہم کو نہ جان کی خوب وفا تم نے تمھیں رحمت ہے
حسن ظاہر بھی ہے ہمارا دلخواہ محو صورت بھی ہوں میں معنی آگاہ باغ عالم کو چشم کم سے مت دیکھ کیا کیا ہیں رنگ یھاں بھی اللہ اللہ
افسوس ہے عمر ہم نے یوں ہی کھوئی دل جس کو دیا ان نے نہ کی دلجوئی جھنجھلا کے گلا چھری سے کاٹا آخر جھل ایسی بھی عشق میں کرے ہے کوئی
دامن عزلت کا اب لیا ہے میں نے دل مرگ سے آشنا کیا ہے میں نے تھا چشمۂ آب زندگانی نزدیک پر خاک سے اس کو بھر دیا ہے میں نے
گذرا یہ کہ شکوہ و شکایت کیجے یا آگے سخن اور حکایت کیجے خوب اتنی تو مجھ پر اب رعایت کیجے دل میرا مرے تئیں عنایت کیجے
کیا کوفت تھی دل کے لخت کوٹے نکلے ٹکڑے جو ہوئے جگر کے ٹوٹے نکلے چھاتی جو پھٹی ندان جلتے جلتے اس میں کے پھپھولے سارے پھوٹے نکلے