شب زلف و رخ عرق فشاں کا غم تھا
شب زلف و رخ عرق فشاں کا غم تھا کیا شرح کروں کہ طرفہ تر عالم تھا رویا میں ہزار آنکھ سے صبح تلک ہر قطرۂ اشک دیدۂ پرنم تھا
شب زلف و رخ عرق فشاں کا غم تھا کیا شرح کروں کہ طرفہ تر عالم تھا رویا میں ہزار آنکھ سے صبح تلک ہر قطرۂ اشک دیدۂ پرنم تھا
حق شہ کی بقا سے خلق کو شاد کرے تاشاہ شیوع دانش و داد کرے یہ دی جو گئی ہے رشتۂ عمر میں گانٹھ ہے صفر کہ افزایش اعداد کرے
اس رشتے میں لاکھ تار ہوں بلکہ سوا اتنے ہی برس شمار ہوں بلکہ سوا ہر سینکڑے کو ایک گرہ فرض کریں ایسی گرہیں ہزار ہوں بلکہ سوا
اے روشنی دیدہ شہاب الدین خاں کٹتا ہے بتاؤ کس طرح سے رمضاں ہوتی ہے تراویح سے فرصت کب تک سنتے ہو تراویح میں کتنا قرآں
بعد از اتمام بزم عید اطفال ایام جوانی رہے ساغر کش حال آ پہنچے ہیں تا سواد اقلیم عدم اے عمر گزشتہ یک قدم استقبال
بے گریہ کمال ترجبینی ہے مجھے در بزم وفا خجل نشینی ہے مجھے محروم صدا رہا بغیر از یک تار ابریشم ساز موے چینی ہے مجھے
دکھ جی کے پسند ہو گیا ہے غالبؔ دل رک رک کر بند ہو گیا ہے غالبؔ واللہ کہ شب کو نیند آتی ہی نہیں سونا سوگند ہو گیا ہے غالبؔ
کہتے ہیں کہ اب وہ مردم آزار نہیں عشاق کی پرسش سے اسے عار نہیں جو ہاتھ کہ ظلم سے اٹھایا ہو گا کیوں کر مانوں کہ اس میں تلوارنہیں
اک گرم آہ کی تو ہزاروں کے گھر جلے رکھتے ہیں عشق میں یہ اثر ہم جگر جلے پروانے کا نہ غم ہو تو پھر کس لیے اسدؔ ہر رات شمع شام سے لے تا سحر جلے
اے منشی خیرہ سر سخن ساز نہ ہو عصفور ہے تو مقابل باز نہ ہو آواز تری نکلے اور آواز کے ساتھ لاٹھی وہ لگے کہ جس میں آواز نہ ہو