شاعری

آدم زاد کی دعا

زمیں کی تنگیوں کو اپنی بخشش سے کشادہ کر کہ سجدہ کر سکوں یہ کیا کہ میرے حوصلوں میں رفعتیں ہیں اور گرتا جا رہا ہوں اپنی فطرت کے نشیبوں میں تری کوتاہیاں میری انا کی سرحدیں ہیں کیا یہ دیواریں سدا اٹھتی رہیں گی میرے سینے پر بتا یہ رنگیں یہ دوریاں پیدا ہوئی ہیں کس کی دانش سے بتا میرے ...

مزید پڑھیے

کایا کا کرب

اس نے دیکھا وہ اکیلا اپنی آنکھوں کی عدالت میں کھڑا تھا بے کشش اوقات میں بانٹی ہوئی صدیاں کسی جلاد کے قدموں کی آوازیں مسلسل سن رہی تھیں آنے والے موسموں کے نوحہ گر مدت سے اپنی بے بسی کا زہر پی کر مر چکے تھے اس نے چاہا بند کمرے کی سلاخیں توڑ کر باہر نکل جائے مگر شاخوں سے مرجھائے ہوئے ...

مزید پڑھیے

منکر کا خوف

پرانا پاسباں ظل الٰہی کا جسے چاہے کرے منصب عطا عالم پناہی کا اسے ترکیب آتی ہے کسی مضمون کہنہ کو نیا عنوان دینے کی وہ دیدہ ور ہمیشہ سے معین ہے ہمارے راستے کے پست و بالا پر وہ دانا اپنے منصوبے بناتا ہے ہماری فطرتوں کی خاک ظلمت سے ہماری خواہش تکرار کی دیرینہ عادت سے وہ معبد ساز بت گر ...

مزید پڑھیے

ہجر زاد

مرے دکھ کا عہد طویل ہے مرا نام لوح فراق پر ہے لکھا ہوا میں جنم جنم سے کسی میں عکس مشابہت کی تلاش میں پھر اپنے خواب سراب ساتھ لیے ہوئے گیا شہر شہر نگر نگر تھیں عجیب بستیاں راہ میں میری جیت میری شکست کی کسی دوسرے کی صداقتیں مری راہبر مری راہزن لیے ساتھ ساتھ قدم قدم کبھی پیش خلوت ...

مزید پڑھیے

نیلی گرد کا زمزم

میں تخیل کے تشدد کا شکار دیکھتا ہوں آسماں سے سایہ سایہ چیتھڑے گرتے ہوئے سن رہا ہوں پھڑپھڑاتی دھوپ کی پیلی صدا درد کی بوڑھی چڑیلیں آنکھ کے صحرا میں اپنی ریتلی آواز میں سب کو پکاریں آؤ آؤ میں اکیلا اپنے سناٹے میں گرد و پیش کے آشوب میں کھویا ہوا چل رہا ہوں راستے کے سنگریزے آنکھ سے ...

مزید پڑھیے

آرا کش نے

الف انا کو کاٹ دیا اپنے سائے پر اوندھا گرنے والا میں تھا لیکن کیا کرتا میرے شہر کی ساری گلیاں بند بھی تھیں متوازی بھی تختیاں ہر دروازے پر ایک ہی نام کی لٹکی تھیں میں کیا کرتا شہر کے گردا گرد سدھائے فتووں کی دیواریں تھیں کوہ شمائل دیواریں جن سے باہر صرف جنازوں کے جانے کا رستہ ...

مزید پڑھیے

دیوار چین

کہاں سے پھیلا ہوا ہے یہ سلسلہ کہاں تک گزر گیا سیل ہمتوں کا بنا کے یہ کوس کوس صدیوں کی رہ گزر سی پہاڑ چلا چڑھی کمانوں سے تیر پھینکیں تو آسماں گر پڑے زمیں پر رواں دواں وقت کے بہاؤ میں ایک لمبی دراڑ جیسے پڑی ہوئی ہے عظیم دیوار سر اٹھائے کھڑی ہوئی ہے جھکے ہوئے آسمان کے نیچے جو اس صحیفے ...

مزید پڑھیے

زندگی اور خودی

خودی کو ذات کا عرفاں نہیں تو کچھ بھی نہیں خودی حقیقت عریاں نہیں تو کچھ بھی نہیں نہ پوچھ مجھ سے وہ راحت جو اضطراب میں ہے تو مثل انجم رخشاں نہیں تو کچھ بھی نہیں ہو شعلہ بار کہ دنیا ہے تودۂ خاشاک تری خودی شرر افشاں نہیں تو کچھ بھی نہیں خرد ہے لذت ایماں کے ذکر سے بیزار حیات لذت ایماں ...

مزید پڑھیے

بے بسی

یہ بھٹکتی ہوئی روحیں یہ نشیب اور فراز تیری محفل میں فروزاں نہ ہوئی شمع نیاز تجھ کو تکلیف سماعت رہی میری آواز آنسوؤں سے نہ ہوئی سرد تری آتش ناز مہر و الفت کے ترانے رہے خوابیدۂ ناز عشق بیچارہ سمجھتا ہے جسے صبح چمن پیکر صبح میں اک رات ہے ویرانے کی گردش رنگ سے تزئین نظر کیا ہوتی ہاں ...

مزید پڑھیے

چاند سلطانہ

اخوت کے پرستاروں کی اک رنگین دنیا تھی حریم نور و نغمہ بزم ناہید و ثریا تھی وہ دنیا شمع آزادی کے پروانوں کی بستی تھی جہاں فطرت سنورتی تھی جہاں مستی برستی تھی وہ دنیا زندگی کے پھول برساتی ہوئی دنیا ملائم نزہتوں کی رقص فرماتی ہوئی دنیا جہاں اک سانس بھی لینے سے گھبراتے تھے ...

مزید پڑھیے
صفحہ 912 سے 960