خانہ بدوش

شاخوں پہ سرخ و زرد شگوفے ہیں محو خواب
خواب گراں سے جاگنے والا ہے آفتاب
گیسو کھلے ہوئے ہیں عروس بہار کے
شانے ہلا رہی ہے صبا لالہ زار کے
ویران ہو چلی ہے ستاروں کی انجمن
دامان کوہسار میں جیسے ہیں خیمہ زن
وہ لوگ پیکر غم و حرماں کہیں جنہیں
بیتابیوں کے روپ میں انساں کہیں جنہیں
ہر سانس ایک محشر پنہاں لئے ہوئے
بیداریاں بھی خواب پریشاں لئے ہوئے
انبار آرزو سے تنفس رکا ہوا
افراط غم سے روح کا پرچم جھکا ہوا
نورس کنول سموم اجل کی پناہ میں
بے جان حسرتوں کے تلاطم نگاہ میں
سینوں میں دل کشاکش ہستی سے داغ داغ
انسانیت کی قبر کے بجھتے ہوئے چراغ
ہونٹوں پہ آہ سرد جبیں پر غبار راہ
ہیں اس زمیں پہ خاک بسر کتنے مہر و ماہ