نیلی گرد کا زمزم
میں تخیل کے تشدد کا شکار
دیکھتا ہوں آسماں سے سایہ سایہ چیتھڑے گرتے ہوئے
سن رہا ہوں
پھڑپھڑاتی دھوپ کی پیلی صدا
درد کی بوڑھی چڑیلیں
آنکھ کے صحرا میں اپنی ریتلی آواز میں سب کو پکاریں
آؤ آؤ
میں اکیلا اپنے سناٹے میں گرد و پیش کے آشوب میں کھویا ہوا
چل رہا ہوں
راستے کے سنگریزے آنکھ سے چنتے ہوئے
تاکہ پتھرائی ہوئی مر مر کی سڑکیں رفتہ رفتہ میرے پاؤں چاٹ لیں
چل رہا ہوں
جانے کس جانب مجھے جانا ہے کیوں جانا ہے
شاید فاصلوں کی انتہا افتادگی ہے
اور شاید منزلیں اس واہمے کی موت کی منظر ہیں
جو تازہ لہو کے آئینے کا عکس ہے
اور کیا معلوم یہ بھی واہمہ ہو
کاش کوئی لفظ اپنی بند مٹھی کھول دے
اور کاغذ پر بچھی سطروں کا جال
مجھ پہ چاروں سمت سے آ کر گرے
کیا خبر آزاد ہو جاؤں ودق ریت کے کہرام سے
چیختی چیلیں زمیں سے سایہ سایہ چیتھڑوں کو لے اڑیں
اور میں مٹی کی ننگی گود میں لیٹے ہوئے
آسماں کو اپنے اوپر اوڑھ لوں