آدم زاد کی دعا
زمیں کی تنگیوں کو اپنی بخشش سے کشادہ کر
کہ سجدہ کر سکوں
یہ کیا کہ میرے حوصلوں میں رفعتیں ہیں
اور گرتا جا رہا ہوں اپنی فطرت کے نشیبوں میں
تری کوتاہیاں میری انا کی سرحدیں ہیں
کیا یہ دیواریں
سدا اٹھتی رہیں گی میرے سینے پر
بتا یہ رنگیں یہ دوریاں پیدا ہوئی ہیں
کس کی دانش سے
بتا میرے لہو میں ڈوبتے جاتے ہیں کیوں
انجیر و زیتوں کے گیاہستاں
مجھے بھائی میرے نیلام کرنے جا رہے ہیں
تک رہا ہے تو مجھے معذور آنکھوں کی سفیدی سے
یہ کیسا شہر ہے
جس کی ثقافت کی مچانوں سے
مجھے مارا گیا ہے اور میں شوکیس میں
لٹکا ہوا ہوں
میرا منظر دیکھنے والے
لکھی سطروں کی کالی ڈوریوں پر ناچتے آتے ہیں
خود اپنے تماشائی
بتا بڑھتی ہوئی آبادیوں میں
چاندنی کیوں گھٹ گئی ہے
لبریز پلکیں جھپکتے قمقمے آنکھوں کا بھینگا پن
نئے چڑھتے دنوں کی سرخیاں ہیں کیا
خداوند
مجھے طائر شجر پربت بنا دے
یا مجھے ڈھا دے
کہ دوبارہ جنم لوں اپنی بے مشروط آزادی کی خواہش سے