شاعری

کالا سمندر

صاف و شفاف پانی کا دھارا قطب شمالی سے قطب جنوبی تک ایک لکیر سی بنائے ہوئے ہے اس صاف و شفاف دھارے کو سیاہ سمندروں نے گھیر لیا ہے سیاہ سمندر نہ تو طوفان اٹھا سکتا ہے نہ ہی کسی کو ڈبو سکتا ہے وہ تو صرف خوف زدہ کر سکتا ہے

مزید پڑھیے

تم سے

ایک آنچل ہے جو پھیلا ہے افق تا بہ افق ایک سایہ ہے جو چھایا ہے دل وحشی پر نغمگی ایک طرح پھوٹتی رہتی ہے کہیں خامشی رنگ لئے گھومتی رہتی ہے کہیں ڈھونڈھتا رہتا ہوں لہجوں میں کبھی باتوں میں ڈھونڈھتا رہتا ہوں خوشبو میں کبھی چاندنی راتوں میں تجھے تجھ کو پاؤں تو بہت دل کو سکوں آئے گا تجھ ...

مزید پڑھیے

ایک پلٹتا ہوا منظر

جب جنازہ جا رہا تھا رات کی خاموش باہوں کی طرف اور زمیں کا ایک حصہ اپنا منہ کھولے ہوئے تھا منتظر میں بھی تھا پیچھے تمہارے ساتھ سب کے اور جدا سب سے میں اکیلا لوٹ کر آیا تھا گھر اب بھی اکثر لوٹتا ہوں میں اکیلا ساتھ سب کے اور جدا سب سے

مزید پڑھیے

کثافت

یہ کثافتوں کی جو بہتات ہے اس سے خود کو ہم کہاں تک بچائیں نہ تو سایۂ گنبد نہ کھلے اجلے صحن ایک بے رنگ سی بے روح فضا چھائی ہے صوت و آہنگ نہیں نوک سناں اٹھے ہیں اپنی آواز کو میں خود بھی نہیں سن سکتا

مزید پڑھیے

ایک رات ایک صبح

رات پھر رگوں میں جیسے چیونٹیاں سی بھر گئیں آنکھیں سرخ ہو گئیں ہاتھ پھر ٹٹولنے لگا گولیوں کی نیند ہاتھ پھر ٹٹولنے لگا کمرے کی کھڑکی سے پرے ننھے ننھے پانی کے قطرے ہوا میں گرتے جائیں تب دل کی اک چنگاری شعلہ بن جاتی ہے اک چہرہ پھر سے دھلتا ہے اک صورت پھر یاد آتی ہے

مزید پڑھیے

تازہ منظر

باہر بارش شروع ہو چکی ہے میں نے کمرے کی کھڑکی بند کر لی ہے بارش کے پانی نے کھڑکی کے شیشے کی دھول صاف کر دی ہے اب باہر کا منظر صاف نظر آتا ہے لیکن بارش کی وجہ سے ابھی چیزیں دھندلی ہیں بارش تھمے گی تو کھڑکی کھلے گی اور ایک تازہ منظر سامنے ہوگا

مزید پڑھیے

تین مختصر نظمیں

۱ اس طرح لب ہلے کہ راتوں نے اپنے سینے کے راز کھول دئے ۲ منجمد قدموں کو پگھلاتا ہے کون راستہ بن کر چلا جاتا ہے کون ۳ تیرے لبوں پر میرے دل کی خواہش ہے آ جائے نہ کوئی تباہی دیکھ کے چل

مزید پڑھیے

میں بڑی مشکل میں ہوں

جس محل میں میں رہنا چاہتا ہوں اس پر پہرے بٹھا دیے گئے ہیں اور اس کے اندر ایک شخص رہتا ہے جو خود کو بادشاہ کہتا ہے

مزید پڑھیے

ہولی

پہلے زمانہ اور تھا مے اور تھی دور اور تھا وہ بولیاں ہی اور تھیں وہ ٹولیاں ہی اور تھیں، وہ ہولیاں ہی اور تھیں لیکن مرے پیر مغاں کل تو نیا انداز تھا اک دور کا تھا خاتمہ اک دور کا آغاز تھا تیرے وفاداروں نے جب کھیلیں گلابی ہولیاں نکلے بنا کر ٹولیاں ہنستے چلے گاتے چلے اپنے گلابی رنگ سے ...

مزید پڑھیے

بھولتی ہوئی یاد

تمہیں جب یاد کرتا ہوں تو اک مٹتی ہوئی دنیا مری آنکھوں کے آئینے میں پہروں جھلملاتی ہے کہیں دم گھٹ رہا ہے مسکراتے سرخ پھولوں کا کہیں کلیوں کے سینے میں ہوا رک رک کے آتی ہے کہیں کجلا گئے ہیں دن کے چمکائے ہوئے ذرے کہیں راتوں کی ہنستی روشنی غم میں نہاتی ہے وہی دنیا جو کل تک دل کا دامن ...

مزید پڑھیے
صفحہ 857 سے 960