شاعری

اٹھیں گے موت سے پہلے

اٹھیں گے موت سے پہلے اسی سفر کے لیے جسے حیات کے صدموں نے ملتوی نہ کیا وہ ہم کہ پھول کی لو کو فریب دیتے تھے قریب شام ستاروں کی رہ گزر پہ چلے وہ ہم کہ تازہ جہاں کے نقیب زن تھے نئے صبا کی چال سے آگے ہماری چال رہی مگر گمان کے قدموں نے اس کو طے نہ کیا وہی سفر جو ہمارے اور اس کے بیچ رہا جسے ...

مزید پڑھیے

مرے چراغ بجھ گئے

مرے چراغ بجھ گئے میں تیرگی سے روشنی کی بھیک مانگتا رہا ہوائیں ساز باز کر رہی تھیں جن دنوں سیاہ رات سے انہی سیاہ ساعتوں میں سانحہ ہوا تمام آئینے غبار سے بے نور ہو گئے سرا کے چار سمت ہول ناک شب کی خامشی چمکتی آنکھ والے بھیڑیوں کے غول لے کے آ گئی قبائے زندگی وہ پھاڑ لے گئے نکیلے ...

مزید پڑھیے

چرواہے کا جواب

آگ برابر پھینک رہا تھا سورج دھرتی والوں پر تپتی زمیں پر لو کے بگولے خاک اڑاتے پھرتے تھے نہر کنارے اجڑے اجڑے پیڑ کھڑے تھے کیکر کے جن پر دھوپ ہنسا کرتی ہے ویسے ان کے سائے تھے اک چرواہا بھیڑیں لے کر جن کے نیچے بیٹھا تھا سر پر میلا صافا تھا اور کلہاڑی تھی ہاتھوں میں چلتے چلتے چرواہے ...

مزید پڑھیے

مصیبت کی خبریں

مصیبت کی خبریں سنو شام والو مصیبت کی خبریں گریبان دامن تلک چاک کر دو سروں پر سواروں کی روندی ہوئی خاک ڈالو ابو قیس کو موت نے کھا لیا ہے امیر دمشق ان دنوں سوگواری میں ہیں غموں کے اندھیروں میں جکڑے ہوئے حزن کی آگ سے ان کا دل جل گیا آہ بو قیس کی موت کے بار سے جھک گئے ہیں خلیفہ کے ...

مزید پڑھیے

رہزنی خوب نہیں خواجہ سراؤں کے لیے

رہزنی خوب نہیں خواجہ سراؤں کے لیے شور پائل کا سر راہ نہ رسوا کر دے ہاتھ اٹھیں گے تو کنگن کی صدا آئے گی تیرگی فتنۂ شہوت کو ہوا دیتی ہے چاندنی رقص پہ مجبور کیا کرتی ہے نرم ریشم سے بنے شوخ دوپٹوں کی قسم لوگ لٹنے کو سر راہ چلے آئیں گے اس قدر آئیں گے بھر جائے گا پھر رات کا دل سخت لہجہ ...

مزید پڑھیے

بے یقین بستیاں

وہ اک مسافر تھا جا چکا ہے بتا گیا تھا کہ بے یقینوں کی بستیوں میں کبھی نہ رہنا کبھی نہ رہنا کہ ان پہ اتنے عذاب اتریں گے جن کی گنتی عدد سے باہر وہ اپنے مردے تمہارے کاندھوں پہ رکھ کے تم کو جدا کریں گے تم ان جنازوں کو قریہ قریہ لیے پھروگے فلک بھی جن سے نا آشنا ہے جنہیں زمینیں بھی رد ...

مزید پڑھیے

پیاسا اونٹ

جس وقت مہار اٹھائی تھی میرا اونٹ بھی پیاسا تھا مشکیزے میں خون بھرا تھا آنکھ میں صحرا پھیلا تھا خشک ببولوں کی شاخوں پر سانپ نے حلقے ڈالے تھے جن کی سرخ زبانوں سے پتوں نے زہر کشید کیا کالی گردن پیلی آنکھوں والی بن کی ایک چڑیل نیلے پنجوں والے ناخن جن کے اندر چکنا میل ایک کٹورا خشک ...

مزید پڑھیے

نام و نسب

اے مرا نام و نسب پوچھنے والے سن لے میرے اجداد کی قبروں کے پرانے کتبے جن کی تحریر مہ و سال کے فتنوں کی نقیب جن کی بوسیدہ سلیں سیم زدہ شور زدہ اور آسیب زمانے کہ رہے جن کا نصیب پشت در پشت بلا فصل وہ اجداد مرے اپنے آقاؤں کی منشا تھی مشیت ان کی گر وہ زندہ تھے تو زندوں میں وہ شامل کب ...

مزید پڑھیے

سفیر لیلی-۱

سفیر لیلیٰ یہی کھنڈر ہیں جہاں سے آغاز داستاں ہے ذرا سا بیٹھو تو میں سناؤں فصیل قریہ کے سرخ پتھر اور ان پہ اژدر نشان برجیں گواہ قریہ کی عظمتوں کی چہار جانب نخیل طوبیٰ اور اس میں بہتے فراواں چشمے بلند پیڑوں کے ٹھنڈے سائے تھے شاخ زیتوں اسی جگہ تھی یہی ستوں تھے جو دیکھتے ہو پڑے ہیں ...

مزید پڑھیے

لہار جانتا نہیں

ہمارے گاؤں کا لہار اب درانتیاں بنا کے بیچتا نہیں وہ جانتا ہے فصل کاٹنے کا وقت کٹ گیا سروں کو کاٹنے کے شغل میں وہ جانتا ہے بانجھ ہو گئی زمین جب سے لے گئے نقاب پوش گاؤں کے مویشیوں کو شہر میں جو برملا صدائیں دے کے خشک خون بیچتے ہیں بے یقین بستیوں کے درمیاں اداس دل خموش اور بے زباں ...

مزید پڑھیے
صفحہ 858 سے 960