کثافت علی ظہیر رضوی لکھنوی 07 ستمبر 2020 شیئر کریں یہ کثافتوں کی جو بہتات ہے اس سے خود کو ہم کہاں تک بچائیں نہ تو سایۂ گنبد نہ کھلے اجلے صحن ایک بے رنگ سی بے روح فضا چھائی ہے صوت و آہنگ نہیں نوک سناں اٹھے ہیں اپنی آواز کو میں خود بھی نہیں سن سکتا