شاعری

الف زبر َا

بچے نے جس بکس میں اپنے ننھے منے کھیل کھلونوں کی جو دنیا بسا رکھی تھی ممی پاپا کے ہاتھوں وہ اجڑ گئی ہے ممی پاپا نے کیا جانے بکس میں کیا کیا بھر رکھا ہے ایک بڑے سے گیٹ کے آگے بکس اٹھائے بچہ روتا چلاتا ہے اپنے جیسا اسے بنانے کی کوشش کا پہلا دن ہے

مزید پڑھیے

تبدیلی

صبح دم جب بھی دیکھا ہے میں نے کبھی ننھے بچوں کو اسکول جاتے ہوئے رقص کرتے ہوئے گنگناتے ہوئے اپنے بستوں کو گردن میں ڈالے ہوئے انگلیاں ایک کی ایک پکڑے ہوئے صبح دم جب بھی دیکھا ہے میں نے انہیں مامتا ان کی راہوں میں سایہ کرے ان کے قدموں میں خوشبو بچھایا کرے دیوتا ان کے ہاتھوں کو چوما ...

مزید پڑھیے

گنگا رو رہی تھی

مجھے معلوم ہے تم نے مجھے بچپن سے پالا تھا بہت راتوں کو تم جاگے تھے اور تم نے مری آنکھوں میں اپنے خواب رکھے تھے کبھی جاتک کتھائیں داستانیں اور کبھی تاریخ کے قصے سنائے تھے مجھے حرفوں کو جب پہچاننا آیا تھا تم نے سب صحیفے اور وہ ساری کتابیں جو تمہارا زندگی بھر کا اثاثہ تھیں مجھے ...

مزید پڑھیے

اکیلے ہونے کا خوف

ہمیں یہ رنج تھا جب بھی ملے چاروں طرف چہرے شناسا تھے ہجوم رہگزر باہوں میں باہیں ڈال کر چلنے نہیں دیتا کہیں جائیں تعاقب کرتے سائے گھیر لیتے ہیں ہمیں یہ رنج تھا چاروں طرف کی روشنی بجھ کیوں نہیں جاتی اندھیرا کیوں نہیں ہوتا اکیلے کیوں نہیں ہوتے ہمیں یہ رنج تھا لیکن یہ کیسی ...

مزید پڑھیے

اک تیرے سوا

آ ہجر کے موسم باہوں میں میں آج تجھے گل پوش کروں جی بھر کے ملوں اک تیرے سوا ہر موسم نے اس کے نامے لا لا کے دیئے ہم جن پہ جئے اک تیرے سوا ہر موسم نے اس کے وعدوں کو سچ جانا اک شب کی امیدوں پہ رکھا اے ہجر کے موسم پاس تو آ میں آج تجھے گل پوش کروں اک تو ہی اکیلا سچ نکلا دل دار مرا جھوٹا ...

مزید پڑھیے

باز دید

وہ سورج کی پہلی کرن لے کے اپنے گھروں سے چلے جب تو چہرے گلابوں کی صورت کھلے تھے جبینوں پہ سجدوں کی تابندگی تھی لباسوں کی شائستگی زیب تن تھی نگاہوں میں شوق سفر کی چمک اور قدموں میں تھی آبشاروں کی مستی مجھے یوں لگا زندگی آسمانوں پہ گایا ہوا گیت دہرا رہی ہے سر شام سورج کی ڈھلتی ...

مزید پڑھیے

دوسرا آدمی

سنو آج ہم میں سے کسی کو موت نے تاکا اچانک مر گیا کوئی چلو دارو پئیں دیوار سے سر پھوڑ کے روئیں نشہ اترے تو اس کی یاد میں اک مرثیہ لکھیں پرانے تذکروں میں اس کے خد و خال کو ڈھونڈیں کتابوں کے ورق الٹیں رسالوں اور اخباروں کی پچھلی فائلیں کھولیں دماغ و دل کے گوشے میں چھپی یادیں ...

مزید پڑھیے

رد عمل

مجھے یہ یقیں تھا کہ جب میں سناؤں گا اس شہر کو شب کے پہلو میں کس طرح پایا ہے میں نے تو سب لوگ میرے قریب آ کے حیرت سے مجھ کو تکیں گے بھری پیالیاں چائے کی ہاتھ سے چھوٹ کر گر پڑیں گی نگاہوں میں گہری اداسی کے بادل امڈنے لگیں گے نئے معاشرے کی بد اعمالیوں اور بد چلنیوں پر بڑے سخت لہجے میں ...

مزید پڑھیے

کتوں کا نوحہ

پرانی بات ہے لیکن یہ انہونی سی لگتی ہے بنی قدوس کے بیٹوں کا یہ دستور تھا وہ اپنی شمشیریں نیاموں میں نہ رکھتے تھے مسلح ہو کے سوتے تھے اور ان کے خوبرو گبرو کسے تیروں کی صورت رات بھر مشعل بکف خیموں کے باہر جاگتے رہتے بنی قدوس کے بیٹے بلاؤں اور عذابوں کو ہمیشہ لغزش پا کا صلہ ...

مزید پڑھیے

امیر شہر کی نیکی

پرانی بات ہے لیکن یہ انہونی سی لگتی ہے امیر شہر راتوں کو بدل کر بھیس گلیوں میں پھرا کرتا وہ دیواروں پہ لکھی ہر نئی تحریر کو پڑھتا سرائے میں ہر اک نو وارد شب سے سفر کا ماجرا سنتا گھروں کی چمنیوں کو دیکھ کر اندازۂ نان جویں کرتا پریشاں حالیوں سے با خبر رہتا مزاروں مقبروں کی چوکھٹوں ...

مزید پڑھیے
صفحہ 25 سے 960