امیر شہر کی نیکی

پرانی بات ہے
لیکن یہ انہونی سی لگتی ہے
امیر شہر راتوں کو
بدل کر بھیس
گلیوں میں پھرا کرتا
وہ دیواروں پہ لکھی
ہر نئی تحریر کو پڑھتا
سرائے میں ہر اک نو وارد شب سے
سفر کا ماجرا سنتا
گھروں کی چمنیوں کو دیکھ کر
اندازۂ نان جویں کرتا
پریشاں حالیوں سے با خبر رہتا
مزاروں مقبروں کی چوکھٹوں کو چومتا
اور شب گئے مسجد میں آتا
صبح تک
یاد الٰہی میں بسر کرتا
ہوا اک رات یوں
چاروں طرف دریا امڈ آیا
کوئی جاگا نہیں
تنہا
امیر شہر کے بازو
فصیل شہر کی بنیاد کو تھامے رہے شب بھر
بدن کی ڈھال سے
سیلاب کو روکے رہے شب بھر
سنا ہے پھر کبھی
دریا کی طغیانی
فصیل شہر کو ڈھانے نہیں آئی
امیر شہر کی نیکی
زمانے تک
خطا کاروں کے کام آئی