باز دید

وہ سورج کی پہلی کرن لے کے اپنے گھروں سے چلے جب
تو چہرے گلابوں کی صورت کھلے تھے
جبینوں پہ سجدوں کی تابندگی تھی
لباسوں کی شائستگی زیب تن تھی
نگاہوں میں شوق سفر کی چمک
اور قدموں میں تھی آبشاروں کی مستی
مجھے یوں لگا زندگی
آسمانوں پہ گایا ہوا گیت دہرا رہی ہے


سر شام سورج کی ڈھلتی کرن
ساتھ اپنے لیے جب گھروں کو وہ لوٹے
تو چہروں کی لالی
لباسوں کی شائستگی مر چکی تھی
نگاہوں میں گہری تھکن تھی
جو قدموں سے ٹکرا رہی تھی


مجھے یوں لگا زندگی
پھر گناہوں کی پاداش میں
آسماں کی حدوں سے نکالی گئی ہے