شاعری

سوانگ بھرتا ہوں ترے شہر میں سودائی کا

سوانگ بھرتا ہوں ترے شہر میں سودائی کا کہ یہی حال ہے اندر سے تماشائی کا بزم کے حال پہ اب ہم نہیں کڑھنے والے انتظامات میں کیا دخل تماشائی کا ہم تو سو جھوٹ بھی بولیں وہ اگر ہاتھ آئے کوئی ٹھیکا تو اٹھایا نہیں سچائی کا دل خوں گشتہ کو جا جا کے دکھائیں یارو شہر میں کام نہیں لالۂ ...

مزید پڑھیے

آنکھوں میں ستارے سے چمکتے رہے تا دیر

آنکھوں میں ستارے سے چمکتے رہے تا دیر اک گھر کے در و بام کو تکتے رہے تا دیر آنسو تو ہوئے خشک پہ گریہ رہا جاری بچوں کی طرح رو کے سسکتے رہے تا دیر اس شاخ سے اک مار سیہ لپٹا ہوا تھا لیکن وہیں طائر بھی چہکتے رہے تا دیر کیا لمس تھا اس دست حنائی کا تہہ آب انگارے سے ہاتھوں میں دہکتے رہے ...

مزید پڑھیے

کن نقابوں میں ہے مستور وہ حسن معصوم

کن نقابوں میں ہے مستور وہ حسن معصوم اے مری چشم گنہ گار تجھے کیا معلوم حال دل قابل اظہار نہیں ہے ورنہ میرے چپ رہنے کا کچھ اور نہیں ہے مفہوم اجنبی ہوں میں ترے شہر کرم میں اے دوست کیا ہے اس شہر کا دستور مجھے کیا معلوم دل خوش فہم یہ کہتا تھا بلا لے گا کوئی جب میں اٹھا تھا تری بزم سے ...

مزید پڑھیے

دیدنی ہے ہماری زیبائی

دیدنی ہے ہماری زیبائی ہم کہ ہیں حسن کے تمنائی بس یہ ہے انتہا تعلق کی ذکر پر ان کے آنکھ بھر آئی تو نہ کر اپنی محفلوں کو اداس راس ہے ہم کو رنج تنہائی ہم تو کہہ دیں سلیمؔ حال ترا کب وہاں ہے کسی کی شنوائی اور تو کیا دیا بہاروں نے بس یہی چار دن کی رسوائی ہم کو کیا کام رنگ محفل سے ہم ...

مزید پڑھیے

سوچ میں گم بے کراں پہنائیاں

سوچ میں گم بے کراں پہنائیاں عشق ہے اور ہجر کی تنہائیاں رات کہتی ہے کہ کٹنے کی نہیں درد کہتا ہے کرم فرمائیاں بین کرتی ہے دریچوں میں ہوا رقص کرتی ہیں سیہ پرچھائیاں خامشی جیسے کوئی آہ طویل سسکیاں لیتی ہوئی تنہائیاں کون تو ہے کون میں کیسی وفا حاصل ہستی ہیں کچھ رسوائیاں یاد سے ...

مزید پڑھیے

نہ پوچھو عقل کی چربی چڑھی ہے اس کی بوٹی پر

نہ پوچھو عقل کی چربی چڑھی ہے اس کی بوٹی پر کسی شے کا اثر ہوتا نہیں کم بخت موٹی پر کفن سے دوسروں کے جو سلاتے ہیں لباس اپنا وہ جذبے ہنس رہے ہیں عشق سادہ کی لنگوٹی پر یہی عیش ایک دن اہل ہوس کا خون چاٹے گا ابھی کچھ دن لگا رکھیں وہ اس کتے کو روٹی پر نہ جانے کیسے نازک تار کو مضراب نے ...

مزید پڑھیے

میں سر چھپاؤں کہاں سایۂ نظر کے بغیر

میں سر چھپاؤں کہاں سایۂ نظر کے بغیر کہ تیرے شہر میں رہتا ہوں اور گھر کے بغیر مجھے وہ شدت احساس دے کہ دیکھ سکوں تجھے قریب سے اور منت نظر کے بغیر یہ شہر ذہن سے خالی نمو سے عاری ہے بلائیں پھرتی ہیں یاں دست و پا و سر کے بغیر نکل گئے ہیں جو بادل برسنے والے تھے یہ شہر آب کو ترسے گا چشم ...

مزید پڑھیے

گوشۂ دل میں کوئی پھول کھلائے رکھو

گوشۂ دل میں کوئی پھول کھلائے رکھو ایک امید پہ آنگن کو سجائے رکھو خشک پتوں کی طرح اصل سے کٹ جاؤ گے ہے یہی اچھا اسے اپنا بنائے رکھو میرا ایماں ہے اسے لوٹ کے گھر آنا ہے طاق میں کوئی دیا روز جلائے رکھو یاد اس کی تو کسی طاق میں رکھنے کی نہیں یہ صحیفہ ہے اسے دل سے لگائے رکھو کھل ہی ...

مزید پڑھیے

اس ایک در کو بھی دیوار کر کے آیا ہوں

اس ایک در کو بھی دیوار کر کے آیا ہوں میں اپنے آپ سے انکار کر کے آیا ہوں مجھے خبر ہے کہ یہ پیاس مار ڈالے گی مگر میں آب کو دشوار کر کے آیا ہوں بچا بچا کے رکھا تھا جسے زمانے سے وہ گنبد آج میں مسمار کر کے آیا ہوں مبادا خواب بکھرنا محال ہو جائے میں خود کو نیند سے بیدار کر کے آیا ہوں نہ ...

مزید پڑھیے

بندشیں توڑ کے ایسا تو نکل آیا تھا

بندشیں توڑ کے ایسا تو نکل آیا تھا چاند جیسے کہ فلک سے یہ پھسل آیا تھا میرا یہ دل جسے پتھر بھی بہت نرم لگے برف جیسا مرے سینے میں پگھل آیا تھا ایسی وادی سے بھلا کون پلٹ کر آئے ایک بچہ ہی سا تھا میں جو نکل آیا تھا تم کو اندر کی بغاوت کا کوئی علم نہیں جسم کو پیٹھ پہ رکھا تھا تو چل ...

مزید پڑھیے
صفحہ 1024 سے 4657