بندشیں توڑ کے ایسا تو نکل آیا تھا
بندشیں توڑ کے ایسا تو نکل آیا تھا
چاند جیسے کہ فلک سے یہ پھسل آیا تھا
میرا یہ دل جسے پتھر بھی بہت نرم لگے
برف جیسا مرے سینے میں پگھل آیا تھا
ایسی وادی سے بھلا کون پلٹ کر آئے
ایک بچہ ہی سا تھا میں جو نکل آیا تھا
تم کو اندر کی بغاوت کا کوئی علم نہیں
جسم کو پیٹھ پہ رکھا تھا تو چل پایا تھا
ہاں میں رویا تھا نکلتے ہوئے اس روز مگر
تیرے ماتھے پہ بھی تھوڑا سا تو بل آیا تھا
ایک چھوٹی سی گزارش مری اب وقت سے ہے
بار بار آیا کرے جیسے وہ کل آیا تھا