گوشۂ دل میں کوئی پھول کھلائے رکھو
گوشۂ دل میں کوئی پھول کھلائے رکھو
ایک امید پہ آنگن کو سجائے رکھو
خشک پتوں کی طرح اصل سے کٹ جاؤ گے
ہے یہی اچھا اسے اپنا بنائے رکھو
میرا ایماں ہے اسے لوٹ کے گھر آنا ہے
طاق میں کوئی دیا روز جلائے رکھو
یاد اس کی تو کسی طاق میں رکھنے کی نہیں
یہ صحیفہ ہے اسے دل سے لگائے رکھو
کھل ہی جائے گا کوئی باب اجابت سجادؔ
اپنے ہاتھوں کو بہ ہر طور اٹھائے رکھو