شاعری

سلیمؔ دشت تمنا میں کون ہے کس کا

سلیمؔ دشت تمنا میں کون ہے کس کا یہاں تو عشق بھی تنہا ہے حسن بھی تنہا بنے وہ بات کہ اہل وفا کے دن پھر جائیں مزاج یار کی صورت بدل چلے دنیا اڑا کے لے ہی گئیں بوئے پیرہن! تیرا سبک خرام ہواؤں پہ کوئی بس نہ چلا مزاج عشق ہو مانوس زندگی اتنا کہ مثل خلوت محبوب ہو بھری دنیا مثال صبح مری ...

مزید پڑھیے

جا کے پھر لوٹ جو آئے وہ زمانہ کیسا

جا کے پھر لوٹ جو آئے وہ زمانہ کیسا تیری آنکھوں نے یہ چھیڑا ہے فسانہ کیسا آنکھ سرشار تمنا ہے تو وعدہ کر لے چال کہتی ہے کہ اب لوٹ کے آنا کیسا مجھ سے کہتا ہے کہ سائے کی طرح ساتھ ہیں ہم یوں نہ ملنے کا نکالا ہے بہانہ کیسا اس کا شکوہ تو نہیں ہے نہ ملے تم ہم سے رنج اس کا ہے کہ تم نے ہمیں ...

مزید پڑھیے

عمر بھر کاوش اظہار نے سونے نہ دیا

عمر بھر کاوش اظہار نے سونے نہ دیا حرف نا گفتہ کے آزار نے سونے نہ دیا دشت کی وسعت بے قید میں کیا نیند آتی گھر کی قید در و دیوار نے سونے نہ دیا تھک کے سو رہنے کو رستے میں ٹھکانے تھے بہت ہوس سایۂ دیوار نے سونے نہ دیا کبھی اقرار کی لذت نے جگائے رکھا کبھی اندیشۂ انکار نے سونے نہ ...

مزید پڑھیے

دل حسن کو دان دے رہا ہوں

دل حسن کو دان دے رہا ہوں گاہک کو دکان دے رہا ہوں شاید کوئی بندۂ خدا آئے صحرا میں اذان دے رہا ہوں ہر کہنہ یقیں کو از سر نو اک تازہ گمان دے رہا ہوں گونگی ہے ازل سے جو حقیقت میں اس کو زبان دے رہا ہوں میں غم کو بسا رہا ہوں دل میں بے گھر کو مکان دے رہا ہوں بے جادہ و راہ ہے جو منزل میں ...

مزید پڑھیے

اہل دل نے عشق میں چاہا تھا جیسا ہو گیا

اہل دل نے عشق میں چاہا تھا جیسا ہو گیا اور پھر کچھ شان سے ایسی کہ سوچا ہو گیا عیب اپنی آنکھ کا یا فیض تیرا کیا کہوں غیر کی صورت پہ مجھ کو تیرا دھوکا ہو گیا تجھ سے ہم آہنگ تھا اتنا کشش جاتی رہی میں ترا ہم قافیہ تھا عیب ایطا ہو گیا یاد نے آ کر یکایک پردہ کھینچا دور تک میں بھری محفل ...

مزید پڑھیے

وہ لوگ بھی ہیں جو موجوں سے ڈر گئے ہوں گے

وہ لوگ بھی ہیں جو موجوں سے ڈر گئے ہوں گے مگر جو ڈوب گئے پار اتر گئے ہوں گے لگی یہ فکر نئی دل کو آ کے منزل پر کہاں بھٹک کے مرے ہم سفر گئے ہوں گے پلٹ کے آنکھ میں وہ موج خوں نہیں آئی چڑھے ہوئے تھے جو دریا اتر گئے ہوں گے چلے تو ایک ہی رستے پہ ہم مگر نہ ملے ملے بھی ہوں گے تو بچ کر گزر گئے ...

مزید پڑھیے

نہ جانے شعر میں کس درد کا حوالہ تھا

نہ جانے شعر میں کس درد کا حوالہ تھا کہ جو بھی لفظ تھا وہ دل دکھانے والا تھا افق پہ دیکھنا تھا میں قطار قازوں کی مرا رفیق کہیں دور جانے والا تھا مرا خیال تھا یا کھولتا ہوا پانی مرے خیال نے برسوں مجھے ابالا تھا ابھی نہیں ہے مجھے سرد و گرم کی پہچان یہ میرے ہاتھوں میں انگار تھا کہ ...

مزید پڑھیے

لمحۂ رفتہ کا دل میں زخم سا بن جائے گا

لمحۂ رفتہ کا دل میں زخم سا بن جائے گا جو نہ پر ہوگا کبھی ایسا خلا بن جائے گا یہ نئے نقش قدم میرے بھٹکنے سے بنے لوگ جب ان پر چلیں گے راستہ بن جائے گا گونج سننی ہو تو تنہا وادیوں میں چیخئے ایک ہی آواز سے اک سلسلہ بن جائے گا جذب کر دے میری مٹی میں لطافت کا مزاج پھر وہ تیرے شہر کی آب و ...

مزید پڑھیے

بزم آخر ہوئی شمعوں کا دھواں باقی ہے

بزم آخر ہوئی شمعوں کا دھواں باقی ہے چشم نم میں شب رفتہ کا سماں باقی ہے کٹ گئی عمر کوئی یاد نہ منظر نہ خیال ایک بے نام سا احساس زیاں باقی ہے کس کی جانب نگراں ہیں مری بے خواب آنکھیں کیا کوئی مرحلۂ عمر رواں باقی ہے سلسلے اس کی نگاہوں کے بہت دور گئے کار دل ختم ہوا کار جہاں باقی ...

مزید پڑھیے

کوئی ستارۂ گرداب آشنا تھا میں

کوئی ستارۂ گرداب آشنا تھا میں کہ موج موج اندھیروں میں ڈوبتا تھا میں اس ایک چہرے میں آباد تھے کئی چہرے اس ایک شخص میں کس کس کو دیکھتا تھا میں نئے ستارے مری روشنی میں چلتے تھے چراغ تھا کہ سر راہ جل رہا تھا میں سفر میں عشق کے اک ایسا مرحلہ آیا وہ ڈھونڈتا تھا مجھے اور کھو گیا تھا ...

مزید پڑھیے
صفحہ 1020 سے 4657