نہ جانے شعر میں کس درد کا حوالہ تھا
نہ جانے شعر میں کس درد کا حوالہ تھا
کہ جو بھی لفظ تھا وہ دل دکھانے والا تھا
افق پہ دیکھنا تھا میں قطار قازوں کی
مرا رفیق کہیں دور جانے والا تھا
مرا خیال تھا یا کھولتا ہوا پانی
مرے خیال نے برسوں مجھے ابالا تھا
ابھی نہیں ہے مجھے سرد و گرم کی پہچان
یہ میرے ہاتھوں میں انگار تھا کہ ژالہ تھا
میں آج تک کوئی ویسی غزل نہ لکھ پایا
وہ سانحہ تو بہت دل دکھانے والا تھا
معانی شب تاریک کھل رہے تھے سلیمؔ
جہاں چراغ نہیں تھا وہاں اجالا تھا