شاعری

مجھے ان آتے جاتے موسموں سے ڈر نہیں لگتا

مجھے ان آتے جاتے موسموں سے ڈر نہیں لگتا نئے اور پر اذیت منظروں سے ڈر نہیں لگتا خموشی کے ہیں آنگن اور سناٹے کی دیواریں یہ کیسے لوگ ہیں جن کو گھروں سے ڈر نہیں لگتا مجھے اس کاغذی کشتی پہ اک اندھا بھروسا ہے کہ طوفاں میں بھی گہرے پانیوں سے ڈر نہیں لگتا سمندر چیختا رہتا ہے پس منظر ...

مزید پڑھیے

خیر کا تجھ کو یقیں ہے اور اس کو شر کا ہے

خیر کا تجھ کو یقیں ہے اور اس کو شر کا ہے دونوں حق پر ہیں کہ جھگڑا صرف پس منظر کا ہے آنسوؤں سے تو ہے خالی درد سے عاری ہوں میں تیری آنکھیں کانچ کی ہیں میرا دل پتھر کا ہے کون دفناتا اسے وہ اک برہنہ لاش تھی سب نے پوچھا کون ہے وہ کون سے لشکر کا ہے تو سکوں سے تھک گیا ہے اور بیتابی سے ...

مزید پڑھیے

دکھ دے یا رسوائی دے

دکھ دے یا رسوائی دے غم کو مرے گہرائی دے اپنے لمس کو زندہ کر ہاتھوں کو بینائی دے مجھ سے کوئی ایسی بات بن بولے جو سنائی دے جتنا آنکھ سے کم دیکھوں اتنی دور دکھائی دے اس شدت سے ظاہر ہو اندھوں کو بھی سجھائی دے افق افق گھر آنگن ہے آنگن پار رسائی دے

مزید پڑھیے

دیکھنے کے لیے اک شرط ہے منظر ہونا

دیکھنے کے لیے اک شرط ہے منظر ہونا دوسری شرط ہے پھر آنکھ کا پتھر ہونا وہاں دیوار اٹھا دی مرے معماروں نے گھر کے نقشے میں مقرر تھا جہاں در ہونا مجھ کو دیکھا تو فلک زاد رفیقوں نے کہا اس ستارے کا مقدر ہے زمیں پر ہونا باغ میں یہ نئی سازش ہے کہ ثابت ہو جائے برگ گل کا خس و خاشاک سے کم تر ...

مزید پڑھیے

ترک ان سے رسم و راہ ملاقات ہو گئی

ترک ان سے رسم و راہ ملاقات ہو گئی یوں مل گئے کہیں تو کوئی بات ہو گئی دل تھا اداس عالم غربت کی شام تھی کیا وقت تھا کہ تم سے ملاقات ہو گئی یہ دشت ہول خیز یہ منزل کی دھن یہ شوق یہ بھی خبر نہیں کہ کہاں رات ہو گئی رسم جہاں نہ چھوٹ سکی ترک عشق سے جب مل گئے تو پرسش حالات ہو گئی خو بو رہی ...

مزید پڑھیے

بن کے دنیا کا تماشا معتبر ہو جائیں گے

بن کے دنیا کا تماشا معتبر ہو جائیں گے سب کو ہنستا دیکھ کر ہم چشم تر ہو جائیں گے مجھ کو قدروں کے بدلنے سے یہ ہوگا فائدہ میرے جتنے عیب ہیں سارے ہنر ہو جائیں گے آج اپنے جسم کو تو جس قدر چاہے چھپا رفتہ رفتہ تیرے کپڑے مختصر ہو جائیں گے رفتہ رفتہ ان سے اڑ جائے گی یکجائی کی بو آج جو گھر ...

مزید پڑھیے

بیٹھے ہیں سنہری کشتی میں اور سامنے نیلا پانی ہے

بیٹھے ہیں سنہری کشتی میں اور سامنے نیلا پانی ہے وہ ہنستی آنکھیں پوچھتی ہیں یہ کتنا گہرا پانی ہے بیتاب ہوا کے جھونکوں کی فریاد سنے تو کون سنے موجوں پہ تڑپتی کشتی ہے اور گونگا بہرا پانی ہے ہر موج میں گریاں رہتا ہے گرداب میں رقصاں رہتا ہے بیتاب بھی ہے بے خواب بھی ہے یہ کیسا زندہ ...

مزید پڑھیے

جو بات دل میں تھی وہ کب زبان پر آئی

جو بات دل میں تھی وہ کب زبان پر آئی سنا رہا ہے فسانے فریب گویائی نئے چراغ سر رہ گزر جلا آئی ہوائے نکہت گل تھی کہ میری بینائی تو گرم رات میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا تھا ذرا قریب سے گزرا تو نیند سی آئی جو بات تجھ میں ہے وہ دوسروں میں کیا ملتی جو بات مجھ میں ہے تو نے بھی وہ کہاں پائی وہ ...

مزید پڑھیے

زندگی موت کے پہلو میں بھلی لگتی ہے

زندگی موت کے پہلو میں بھلی لگتی ہے گھاس اس قبر پہ کچھ اور ہری لگتی ہے روز کاغذ پہ بناتا ہوں میں قدموں کے نقوش کوئی چلتا نہیں اور ہم سفری لگتی ہے آنکھ مانوس تماشا نہیں ہونے پاتی کیسی صورت ہے کہ ہر روز نئی لگتی ہے گھاس میں جذب ہوئے ہوں گے زمیں کے آنسو پاؤں رکھتا ہوں تو ہلکی سی نمی ...

مزید پڑھیے

جو دل میں ہیں داغ جل رہے ہیں

جو دل میں ہیں داغ جل رہے ہیں مسجد میں چراغ جل رہے ہیں جس آگ سے دل سلگ رہے تھے اب اس سے دماغ جل رہے ہیں بچپن مرا جن میں کھیلتا تھا وہ کھیت وہ باغ جل رہے ہیں چہرے پہ ہنسی کی روشنی ہے آنکھوں میں چراغ جل رہے ہیں رستوں میں وہ آگ لگ گئی ہے قدموں کے سراغ جل رہے ہیں

مزید پڑھیے
صفحہ 1021 سے 4657