سلیمؔ دشت تمنا میں کون ہے کس کا
سلیمؔ دشت تمنا میں کون ہے کس کا
یہاں تو عشق بھی تنہا ہے حسن بھی تنہا
بنے وہ بات کہ اہل وفا کے دن پھر جائیں
مزاج یار کی صورت بدل چلے دنیا
اڑا کے لے ہی گئیں بوئے پیرہن! تیرا
سبک خرام ہواؤں پہ کوئی بس نہ چلا
مزاج عشق ہو مانوس زندگی اتنا
کہ مثل خلوت محبوب ہو بھری دنیا
مثال صبح مری خلوتوں میں کون آیا
وہ روشنی ہے کہ پلکیں جھپک رہی ہے فضا
ہمیں پہ جب نہ توجہ ہوئی تو ہم کو کیا
بلا سے آپ کسی کے لیے ہوں قہر و بلا
وہ تو ہے یاد تری ہے کہ میری حسرت ہے
یہ کون ہے مرے سینے میں سسکیاں لیتا
کڑھے تو اپنی جگہ خوش رہے تو اپنی جگہ
سلیمؔ ہم نے کسی سے نہ کچھ کہا نہ سنا