شاعری

چہچہاتی چند چڑیوں کا بسر تھا پیڑ پر

چہچہاتی چند چڑیوں کا بسر تھا پیڑ پر میرے گھر اک پیڑ تھا اور ایک گھر تھا پیڑ پر موسم گل تو نے سوچا ہے کہ اس کا کیا بنا تیرے لمس مہرباں کا جو اثر تھا پیڑ پر اب ہوا کے ہاتھ میں تو اک تماشا بن گیا زرد سا پتا سہی میں معتبر تھا پیڑ پر اس لیے میرا پرندوں سے لگاؤ ہے بہت میں بھی تو کوئی ...

مزید پڑھیے

یہ سرابوں کی شرارت بھی نہ ہو تو کیا ہو

یہ سرابوں کی شرارت بھی نہ ہو تو کیا ہو آنکھ میں حیرت و وحشت بھی نہ ہو تو کیا ہو ہم کہ اس ہجر کے صحرا میں پڑے ہیں کب سے خیمۂ خواب رفاقت بھی نہ ہو تو کیا ہو شکر کر حجرۂ تنہائی میں بیٹھے ہوئے شخص خود سے ملنے کی یہ مہلت بھی نہ ہو تو کیا ہو میں وہ محروم زمانہ کہ کبھی سوچتا ہوں سانس ...

مزید پڑھیے

تجھے کھو کر محبت کو زیادہ کر لیا میں نے

تجھے کھو کر محبت کو زیادہ کر لیا میں نے یہ کس حیرت میں آئینہ کشادہ کر لیا میں نے مجھے پیچیدہ جذبوں کی کہانی نظم کرنا تھی سو جتنا ہو سکا اسلوب سادہ کر لیا میں نے محبت کا سنا تھا ذات کی تکمیل کرتی ہے مگر اس آرزو میں خود کو آدھا کر لیا میں نے شکست خواب پر ہی خواب کی بنیاد رکھنا ...

مزید پڑھیے

زمزمہ اضطراب کچھ بھی نہ تھا

زمزمہ اضطراب کچھ بھی نہ تھا عشق خانہ خراب کچھ بھی نہ تھا میرا سب کچھ تھا صرف ایک سوال اور اس کا جواب کچھ بھی نہ تھا سانس تک تو گنے چنے ہوئے تھے کچھ نہ تھا بے حساب کچھ بھی نہ تھا سجدۂ شکر نے بچایا ہے ورنہ میرا ثواب کچھ بھی نہ تھا اب تجھے دیکھ کر یہ جانا ہے وہ جو دیکھا تھا خواب کچھ ...

مزید پڑھیے

دیکھ پائی نہ مرے سائے میں چلتا سایہ

دیکھ پائی نہ مرے سائے میں چلتا سایہ آ گئی رات اٹھانے مرا ڈھلتا سایہ تم نے اچھا ہی کیا چھوڑ گئے ویسے بھی ایک سائے سے بھلا کیسے سنبھلتا سایہ میں وہی ہوں مرا سایہ بھی وہی ہے اب تک میں بدلتا تو کوئی رنگ بدلتا سایہ میں نے اس واسطے منہ کر لیا سورج کی طرف مجھ سے دیکھا نہ گیا آگے نکلتا ...

مزید پڑھیے

کہاں زمیں کے ضعیف زینے پہ چل رہی ہے

کہاں زمیں کے ضعیف زینے پہ چل رہی ہے یہ رات صدیوں سے میرے سینے پہ چل رہی ہے رواں ہے موج جنوں پہ احساس کا سفینہ اور ایک تہذیب اس سفینے پہ چل رہی ہے خمار خواب سحر یہ دل اور تیری یادیں ہوا دبے پاؤں آبگینے پہ چل رہی ہے میں مر گیا تو خبر نہیں ان کا کیا بنے گا دکان یاراں تو صرف کینے پہ ...

مزید پڑھیے

کھول کر بات کا بھرم دونوں

کھول کر بات کا بھرم دونوں کم سخن ہو گئے ہیں ہم دونوں ہو گئے اب جدا تو کیا کہیے تھے خطا کار بیش و کم دونوں جب ملیں گے تو بھول جائیں گے جو ابھی سوچتے ہیں ہم دونوں دفعتاً سامنا ہوا اپنا جی اٹھے جیسے ایک دم دونوں ہجرت و ہجر سے بچائے خدا مجھ کو لاحق ہیں آج غم دونوں اب یہی ایک راہ ...

مزید پڑھیے

شب کی زلفیں سنوارتا ہوا میں

شب کی زلفیں سنوارتا ہوا میں یہ ترے ساتھ جاگتا ہوا میں رشتۂ جاں سے کٹ گیا یکسر کچھ تعلق نباہتا ہوا میں وہ سر بزم جھومتا ہوا تو یہ سر رہ کراہتا ہوا میں وہ سر شاخ تو مہکتا ہوا اور سر خاک سوکھتا ہوا میں گر گیا تھک کے اپنے قدموں میں تجھ سے تجھ کو ہی مانگتا ہوا میں عکس در عکس پھیلتا ...

مزید پڑھیے

دکھائی دیں گی سبھی ممکنات کاغذ پر

دکھائی دیں گی سبھی ممکنات کاغذ پر ذرا اتار تو لوں سب جہات کاغذ پر مری کہانی بہت دیر سے رکی ہوئی ہے وہ کھو گیا ہے کہیں رکھ کے ہاتھ کاغذ پر ہماری تازہ غزل میں بھی عکس ہے اس کا وہ ایک اشک جو ٹپکا تھا رات کاغذ پر میں تھک چکا ہوں فقط رائیگانیاں لکھتے انڈیل دوں نہ کہیں اب دوات کاغذ ...

مزید پڑھیے

تم غلط سمجھے ہمیں اور پریشانی ہے

تم غلط سمجھے ہمیں اور پریشانی ہے یہ تو آسانی ہے جو بے سر و سامانی ہے خواہش دید سر وصل جو نکلی نہیں تھی لمحۂ ہجر میں تجرید کی عریانی ہے کیوں بھلا بوجھ اٹھاؤں میں ترے خوابوں کا میرے آئینے میں کیا کم کوئی حیرانی ہے ایک مدت سے جو بیٹھی ہے مری پلکوں پر خانۂ دل میں وہ صورت ابھی ...

مزید پڑھیے
صفحہ 1017 سے 4657