تم غلط سمجھے ہمیں اور پریشانی ہے

تم غلط سمجھے ہمیں اور پریشانی ہے
یہ تو آسانی ہے جو بے سر و سامانی ہے


خواہش دید سر وصل جو نکلی نہیں تھی
لمحۂ ہجر میں تجرید کی عریانی ہے


کیوں بھلا بوجھ اٹھاؤں میں ترے خوابوں کا
میرے آئینے میں کیا کم کوئی حیرانی ہے


ایک مدت سے جو بیٹھی ہے مری پلکوں پر
خانۂ دل میں وہ صورت ابھی انجانی ہے


ڈوب جاتا ہے سر شام ہمارا دل بھی
یہ بھی سورج کی طرح رات کا زندانی ہے


خود کو ہم بیچ کے اک خواب تو لے پائے نہیں
تیرے بازار میں کس چیز کی ارزانی ہے


کس بھروسے پہ میں ٹکراؤں ہوا سے سجادؔ
گر بکھرتا ہوں تو اطراف میں سب پانی ہے