پی کر شراب شیخ نے بھونچال کر دیا

پی کر شراب شیخ نے بھونچال کر دیا
حضرت کا مغبچوں نے جو پھر حال کر دیا


صبر و قرار جاہ و حشم دین و جان و دل
یکسر خرام ناز نے پامال کر دیا


ظلم و ستم ہوا جواں مردی تو نہ ہوئی
پل میں سپہر پیر نے جو زال کر دیا


مٹی نگل گئی نوجوانوں کی ہستیاں
گردوں نے نونہال کو پامال کر دیا


روٹی اچک لی میں نے بعنوان مفلسی
غربت نے میری مجھ کو بد اعمال کر دیا


نکتہ سرا تھے کیا ہوا حاویؔ میاں تمہیں
شعر و سخن کو وقف خط و خال کر دیا