پھولوں کو شرمسار کیا ہے کبھی کبھی

پھولوں کو شرمسار کیا ہے کبھی کبھی
کانٹوں سے ہم نے پیار کیا ہے کبھی کبھی


موقوف چاک جیب و گریباں ہی پر نہیں
دامن بھی تار تار کیا ہے کبھی کبھی


میں مضطرب رہا ہوں یہ سچ ہے فراق میں
ان کو بھی بے قرار کیا ہے کبھی کبھی


دل کا دیا جلا کے خود اپنے ہی خون سے
شب شب بھر انتظار کیا ہے کبھی کبھی


تنہا شب فراق میں تار نفس کے ساتھ
تاروں کا بھی شمار کیا ہے کبھی کبھی


ایسا بھی وقت آیا ہے اکثر حیات میں
سر اپنا سوئے دار کیا ہے کبھی کبھی


صیاد میرے طائر دل نے قفس کو بھی
نالوں سے پر بہار کیا ہے کبھی کبھی