اپنی جولاں گاہ زیر آسماں سمجھا تھا میں

اپنی جولاں گاہ زیر آسماں سمجھا تھا میں
آب و گل کے کھیل کو اپنا جہاں سمجھا تھا میں


جس دل نا عاقبت اندیش نے چھوڑا تھا ساتھ
ایسے دیوانے کو میر کارواں سمجھا تھا میں


آنکھ بند ہوتے ہی مجھ پر کھل گیا راز حیات
زیست کو دنیا میں عمر جاوداں سمجھا تھا میں


ان کے قبضے میں ہے جنت ان کے قبضے میں ہے نار
اس تعلی کو حدیث دیگراں سمجھا تھا میں


مستقل ہے وہ تو برق و باد کا مسکن ظہیرؔ
یہ غلط فہمی تھی جس کو آشیاں سمجھا تھا میں