لذت درد الم ہی سے سکوں آ جائے ہے

لذت درد الم ہی سے سکوں آ جائے ہے
دل مرا ان کی نوازش سے تو گھبرا جائے ہے


گرچہ ہے طرز تغافل پردہ دار راز عشق
پر ہم ایسے کھوئے جاتے ہیں کہ وہ پا جائے ہے


بزم میں میرے عدو ہیں ان سے ان کا ارتباط
ایسا منظر کب مری آنکھوں سے دیکھا جائے ہے


دل کی دل ہی میں رہی یہ حسرت دیدار بھی
میری نظریں اٹھتے ہی وہ مجھ سے شرما جائے ہے


جب نہ محشر میں بھی ہوگا ان کا میرا سامنا
آج جی بھر کر تڑپ لوں جتنا تڑپا جائے ہے


کیا سحر ہونے سے پہلے ہی فراق جان ہے
دل مرا کچھ شام ہی سے آج بیٹھا جائے ہے


آگ فرقت کی جو بھڑکی جل گئے قلب و جگر
اے ظہیرؔ آتش کدے میں کس سے ٹھہرا جائے ہے