نکہت جو تری زلف معنبر سے اڑی ہے

نکہت جو تری زلف معنبر سے اڑی ہے
کب خلد میں خوشبو وہ گل تر سے اڑی ہے


حسرت بھری نظروں سے اسے دیکھ رہا ہوں
وہ آب جو چلتے ہوئے خنجر سے اڑی ہے


اک قابض ارواح کے ہم راہ مری روح
پیکر سے جو نکلی تو برابر سے اڑی ہے


وحشت کے سبب جب مرا گھر ہو گیا ویراں
تب گھر کے اجڑنے کی خبر گھر سے اڑی ہے


رندوں کی بھی قسمت کی خرابی کا ہے افسوس
مے بن کے پری شیشہ و ساغر سے اڑی ہے


ساقی نے تجھے تشنہ ہی رکھا ہے ظہیرؔ اب
شاید مئے عشرت بھی مقدر سے اڑی ہے