ہوا دے کر دبے شعلوں کو بھڑکایا نہیں جاتا

ہوا دے کر دبے شعلوں کو بھڑکایا نہیں جاتا
دکھا کر جام مے پیاسوں کو ترسایا نہیں جاتا


نہ لے جا دور گلشن سے ارے صیاد بلبل کو
کہ بیمار محبت پر ستم ڈھایا نہیں جاتا


تری تر دامنی کو دیکھ کر کچھ شک سا ہوتا ہے
کہ دھبہ دامن معصوم پر پایا نہیں جاتا


ہیں دونوں نور کے ٹکڑے مگر حفظ مراتب سے
ستاروں کو شہ خاور سے ٹکرایا نہیں جاتا


بہارو ہے بری یہ بات ہم سے عاشق گل کو
دکھا کے روئے گل کانٹوں میں الجھایا نہیں جاتا


نہ کر نشتر زنی صیاد سادہ لوح بلبل پر
نہ جانے جو تڑپنا اس کو تڑپایا نہیں جاتا


ظہیرؔ خستہ یہ بھی اک اصول پاس الفت ہے
زباں پر کلمۂ شکوہ کبھی لایا نہیں جاتا