عشق ہے دریائے آتش تیر کر جانے کا نام

عشق ہے دریائے آتش تیر کر جانے کا نام
حسن ہے صحن چمن میں پھول برسانے کا نام


رات بھر شمع حزیں اس فکر میں جلتی رہی
کیوں بلند آخر ہے اس دنیا میں پروانے کا نا


لیلیٰ و شیریں کی کیا کچھ کہیے اب اس گل کی بات
آج ہے اونچا چمن میں جس کے افسانے کا نام


طور دل کی خیر ہو اب تاب نظارہ کہاں
حسن کا جلوہ تمہارے برق گر جانے کا نام


تو چمن ہے اور تری رفتار ہے موج نسیم
خامشی غنچہ ہنسی ہے پھول کھل جانے کا نام


کہکشاں ہے مانگ تیری غازۂ رخ چاندنی
قد زمیں پر ماہ و انجم کے اتر آنے کا نام


جب کبھی شانوں پہ زلف عنبریں لہرا گئی
بس یہی ہے نکہت گل کے مہک جانے کا نام