پھر اس کے بعد بدن تھا نہ جان جان میں تھی

پھر اس کے بعد بدن تھا نہ جان جان میں تھی
عجب چڑھائی مری عمر کی ڈھلان میں تھی


تمہارا عکس مرے آنسوؤں میں روشن تھا
تمہاری شکل بھی ہر وقت میرے دھیان میں تھی


تمام عمر گنوا دی تلاش میں اس کی
جو ایک شے نہ مری تھی نہ اس جہان میں تھی


مجھے بیان بھی کرتی تھیں دوسری آنکھیں
مری زبان بھی شاید کسی زبان میں تھی


وہ ڈھونڈھتا تھا جہاں پر وہاں نہیں تھا میں
مری کہانی کسی اور داستان میں تھی


طناب عشق ترے ہاتھ ہی سے چھوٹی ہے
تو ایک عمر سے مشغول کھینچ تان میں تھی


ہمارے پیروں سے کھسکی ہوئی زمیں فیاضؔ
اتار لائے اسے ہم جو آسمان میں تھی