پلک سے اک اشارہ بس کئے جاتے تو رک جاتے

پلک سے اک اشارہ بس کئے جاتے تو رک جاتے
نکلتے دم خفا ہو کر نہیں آتے تو رک جاتے


ستایا ہی نہیں تم نے ذرا سا بھی کبھی ہم کو
مہرباں تم کبھی ہم پر ستم ڈھاتے تو رک جاتے


سنا ہم نے تمہیں اکثر عجب سے گیت گاتے بس
کسی دن کے کنارے اک غزل گاتے تو رک جاتے


ہمیں محفل میں رکنے کا تو تھا بس ایک ہی رستا
وہاں محفل میں جاتے اور زہر کھاتے تو رک جاتے


یہ گلدستے کے بدلے میں جہاں ملتے تھے ہم اکثر
وہاں کے پیڑ کی پتی اٹھا لاتے تو رک جاتے