نیا لہجہ نیا منظر نیا پندار ہو پیدا

نیا لہجہ نیا منظر نیا پندار ہو پیدا
مرے نغموں سے ایسی رونق گلزار ہو پیدا


یہی تھا مصلحت اندیش موسم کا تقاضا کیا
صدائے خامشی سے اک نئی گفتار ہو پیدا


بکھر جاتا ہے سب شیرازۂ امن‌‌ و سکوں آخر
اگر بستی میں کوئی آدمی خوں خوار ہو پیدا


کہاں برداشت ہو سکتا ہے یہ مجھ سے کسی صورت
ثمر پکنے سے پہلے ہی کوئی حق دار ہو پیدا


ہمیشہ چھیڑتا ہوں ساز اپنے کہنہ زخموں کا
مرے دل کے بیاباں میں کوئی گلزار ہو پیدا


یہی میں چاہتا ہوں اے غزالہ دشت و صحرا میں
کہ اب میرے جنوں سے گرمئ بازار ہو پیدا


مضامیں غیب سے آتے نہیں آتشؔ تو کیا کچے
کہاں سے شعر کوئی بھی مرا تہہ دار ہو پیدا