بہار آئی ہے رنگ قیاس تازہ لیے
بہار آئی ہے رنگ قیاس تازہ لیے
شجر شجر کے بدن پر لباس تازہ لیے
ہماری سمت کسی نے پلٹ کے دیکھا نہیں
تمام پھرتے رہے لب پہ پیاس تازہ لیے
کوئی ملا نہ خریدار ہم کو شام تلک
بھٹک رہے ہیں لہو کا گلاس تازہ لیے
گلوں کی خیر نہیں اب کسی طرح شاید
خزاں کا قافلہ نکلا ہے آس تازہ لیے
نہ جانے کون سی دنیا میں کھویا رہتا ہے
ابھی تو آیا ہے ہوش و حواس تازہ لیے
یہ تو کسی کو پتہ ہی نہیں چلا آتشؔ
کہاں سے آئی ہوا سبز گھاس تازہ لیے