ابھی دریا میں طغیانی بہت ہے
ابھی دریا میں طغیانی بہت ہے
سنبھل کر پاؤں رکھ پانی بہت ہے
سلامت ہے یقیں کی شاخ کیسے
نئے موسم کو حیرانی بہت ہے
چلو کچھ پیڑ رستے میں اگائیں
مسافر کو پریشانی بہت ہے
سمجھتے ہیں کہاں وہ مصلحت کو
نئی نسلوں میں نادانی بہت ہے
مرے چہرے پہ دھندلاہٹ ہے لیکن
کسی کا چہرہ نورانی بہت ہے
سفر کا ماحصل کیا ہوگا آتشؔ
ڈگر منزل کی انجانی بہت ہے