کیا پست اپنے عزم سفر ہو کے رہ گئے

کیا پست اپنے عزم سفر ہو کے رہ گئے
آنکھوں میں چور خواب سحر ہو کے رہ گئے


وہ سبزۂ شرار کا چشمہ ابل پڑا
باغ و بہار زیر و زبر ہو کے رہ گئے


گزرا ادھر سے شعلۂ طوفان بھی نہیں
لیکن نواح شہر کھنڈر ہو کے رہ گئے


بے خوف سنگ ریزے چلانے لگے ہیں لوگ
ہم کس مکاں کے شیشہ و در ہو کے رہ گئے


مجھ کو مصوری کا بہت شوق تھا مگر
ناکام میرے دست ہنر ہو کے رہ گئے


ہم آ گئے ہیں ایسے اجالوں کے شہر میں
ضائع ہمارے ذوق نظر ہو کے رہ گئے


اس آدمی کے ہاتھ میں آئینہ تھا عجب
چہرے کے رنگ رنگ دگر ہو کے رہ گئے


آندھی اٹھی نہ برف کی بارش ہوئی مگر
قربان بے لباس شجر ہو کے رہ گئے