کبھی مکان سے باہر نکل کے دیکھ ذرا
کبھی مکان سے باہر نکل کے دیکھ ذرا
تڑپ رہا ہے کہاں کون چل کے دیکھ ذرا
لبوں پہ کیسے مسرت کا جام چھلکے گا
خزاں رسیدہ چمن کو بدل کے دیکھ ذرا
سیاہ رنگ بتا دے گا کیسے چہرے کو
تصورات کے شعلوں میں جل کے دیکھ ذرا
یہ دن گزار رہیں یہ کیسے لوگ یہاں
نئے مزاج کے سانچے میں ڈھل کے دیکھ ذرا
یہ کیسے کیسے عجیب و غریب منظر ہیں
کبھی تو دشت بلا میں ٹہل کے دیکھ ذرا
کہیں دبوچ نہ لے تجھ کو اپنی بانہوں میں
بپھرتی ندی کو آتشؔ سنبھل کے دیکھ ذرا