یہ شہر گل خش و خاشاک ہو گیا کیسے
یہ شہر گل خش و خاشاک ہو گیا کیسے
مجھے پتہ نہیں غم ناک ہو گیا کیسے
جس آدمی نے کنارہ کبھی نہیں دیکھا
سمندروں کا وہ تیراک ہو گیا کیسے
کہیں چراغ کی مدھم سی روشنی بھی نہیں
تو پھر یہ دامن شب چاک ہو گیا کیسے
زمانہ کہتا رہا جس کو عمر بھر احمق
وہ شخص صاحب ادراک ہو گیا کیسے
ہوائے تند کو اس بات پر تعجب ہے
چراغ راہ کا بے باک ہو گیا کیسے
ہوا میں کوئی شرر کا گماں نہ تھا آتشؔ
تو پھر شجر کا بدن خاک ہو گیا کیسے