نقش خیال دل سے مٹایا نہیں ہنوز

نقش خیال دل سے مٹایا نہیں ہنوز
بے درد میں نے تجھ کو بھلایا نہیں ہنوز


وہ سر جو تیری راہ گزر میں تھا سجدہ ریز
میں نے کسی قدم پہ جھکایا نہیں ہنوز


محراب جاں میں تو نے جلایا تھا خود جسے
سینے کا وہ چراغ بجھایا نہیں ہنوز


بے ہوش ہو کے جلد تجھے ہوش آ گیا
میں بد نصیب ہوش میں آیا نہیں ہنوز


مر کر بھی آئے گی یہ صدا قبر جوشؔ سے
بے درد میں نے تجھ کو بھلایا نہیں ہنوز