نہیں ہو پائے گی تجھ پر عیاں آزردگی دل کی

نہیں ہو پائے گی تجھ پر عیاں آزردگی دل کی
چھپا رکھی نہاں خانوں میں ہے افسردگی دل کی


تھکن چہروں پہ ہے اور رونقیں ناپید دنیا کی
اندھیروں میں نہ جانے کب سے ہے تابندگی دل کی


کوئی نبضیں ٹٹولے سانس کی بھی آہٹیں پرکھے
ملے گا کھوج نہ کوئی ہے کیا درماندگی دل کی


زمانہ اپنی چالیں چل گیا ہے ہم یہیں پر ہیں
نہ اپنے ساتھ اب تک ہو سکی آمادگی دل کی


سرابوں میں قدم ہیں تو اڑانیں ہیں خیالوں میں
نئے رستوں پہ لے آئی ہے یہ افتادگی دل کی


فتاوائے جہاں گیری روش کیسے بدل پائیں
جو خود کے بھی نہ بس میں ہو سکے آشفتگی دل کی


جفا بدلے وفا کے اور محبت کی جزا نفرت
مٹے گی کیا کسی توجیہہ سے شرمندگی دل کی


گل امید کھلنے کو چمن میں آبیاری ہو
خزاں کا روپ نہ دھارے کہیں پژمردگی دل کی


ہمیں اک عالم تسکین میں رہنا میسر ہو
سبیںؔ شرف قبولیت جو پائے بندگی دل کی