حقیقتوں سے نظر چرا کے خیال خوابوں میں زندہ رہنا

حقیقتوں سے نظر چرا کے خیال خوابوں میں زندہ رہنا
زوال کی داستان بن کر فقط کتابوں میں زندہ رہنا


خود اپنے ہاتھوں سے گھر جلا کے فضائیں مسموم کر کے ساری
جھلستے دن اور تڑپتی راتوں کے پھر عذابوں میں زندہ رہنا


ہوں بادہ و جام سامنے گر نہیں سلامت جو دست و بازو
تو پھر ہے تقدیر تشنگی کے انہی سرابوں میں زندہ رہنا


گرے ہیں کٹ کے وہ پر تھی جن کی اڑان اپنی فضا سے آگے
اتر کے ان کو بلندیوں سے پڑا خرابوں میں زندہ رہنا


جو اپنی مرضی کی جمع تفریق کر کے دل کو لبھا رہے ہیں
نہیں خبر کہ پڑے گا کیسے کڑے حسابوں میں زندہ رہنا