نہ یہ انداز نہ لفظوں سے بیاں ہوتی ہے

نہ یہ انداز نہ لفظوں سے بیاں ہوتی ہے
دل کی حالت تو نگاہوں سے عیاں ہوتی ہے


ہم زمانے سے جڑے ہیں تو زمانہ ہم سے
ہم کوئی بات کریں سب کی زباں ہوتی ہے


کچھ تو پندار وفا کا ہی بھرم رکھ لیتے
بد گمانی رہ الفت میں گراں ہوتی ہے


جس کو اپنا کہا پھر جان لٹا دی اس پر
قدر خود غرضوں کو پر جاں کی کہاں ہوتی ہے


رات کے پچھلے پہر کھلتے ہیں دفتر دل کے
اپنی آہوں کی صدا سن کے اذاں ہوتی ہے