ہم کو خوش رہنے کی اکثر جو دعا دیتے ہیں
ہم کو خوش رہنے کی اکثر جو دعا دیتے ہیں
غم کا سامان بھی وہ خود ہی بنا دیتے ہیں
سر جھکاؤ تو خوشامد ہے اٹھاؤ تو غرور
جانے کس بیچ کے رستے کا پتا دیتے ہیں
ان کے چہرے سے ٹپکتا ہے چھپا بغض و عناد
درس دنیا کو محبت کا وہ کیا دیتے ہیں
ہم ضرورت میں کبھی کام تھے آئے جن کے
ہم کو وہ پہلو تہی کر کے صلہ دیتے ہیں
بے تکلف ہیں مگر ہم بھی انہیں جانتے ہیں
وقت پڑنے پہ وہ کس طرح دغا دیتے ہیں
رائیگاں ٹھہرے سبھی آنکھ سے ٹپکے آنسو
دل پہ گرتے ہیں تو احساس نیا دیتے ہیں