جس صبر و رضا سے ترے رستے پہ رواں ہوں
جس صبر و رضا سے ترے رستے پہ رواں ہوں
باطل کے ارادوں کے لئے کوہ گراں ہوں
اے ماہ منور تجھے اس در کی قسم ہے
رستہ وے سجھا دے کہ میں اک پل میں وہاں ہوں
آنا نہ گوارا ہو اگر کوچے سے ان کے
مرقد مرا کر دیجے فرستادہ جہاں ہوں
افکار نہ جذبوں کی پذیرائی جہاں میں
اب اپنے ہی ادراک سے میں خود بھی نہاں ہوں
شنوائی مری ذات کی جس در سے مقدر
سربستہ لیے راز سبھی اس پہ عیاں ہوں
یوں دامن رحمت نے چھپا رکھا ہے مجھ کو
گردش مجھے اب ڈھونڈتی پھرتی ہے کہاں ہوں