نا آشنا گر مجھ سے مرے یار نہ ہوتے

نا آشنا گر مجھ سے مرے یار نہ ہوتے
حالات سے ہم ایسے تو بیزار نہ ہوتے


اس طرح مجھے آپ نے چھوڑا نہیں ہوتا
دامن میں مرے پھول تھے یہ خار نہ ہوتے


ہوتے نہ زلیخا سے خریدار تو شاید
یوسف کے لئے مصر کے بازار نہ ہوتے


کر دیتا اگر ہم پہ عنایت کی نظر تو
پھر تیری نظر کے ہی طلب گار نہ ہوتے


کھلتے نہ مجھے شام و سحر کے یہ اجالے
جو جرم محبت کے سزاوار نہ ہوتے


پھر عشق میں کرتا نہ میں احساس ندامت
تم جیسے بھی ہوتے پہ جفا کار نہ ہوتے


ہم کو بھی کہاں شوق تھا مے خواری کا ساقی
گر عشق نہ ہوتا تو یوں مے خوار نہ ہوتے


ہر خواب کی تعبیر ہی ہو جاتی مکمل
ہم کاش ترے عشق میں بے دار نہ ہوتے


افسردہ سا دریا تھا تو کیا چاہتے ساحل
ہم وہ تھے شناور جو کبھی پار نہ ہوتے


ہوتے نہ صدف قلبؔ تری آنکھ کے خالی
پلکوں پہ اگر ابر گہربار نہ ہوتے