نہ سمجھا ہوں نہ سمجھایا گیا ہوں

نہ سمجھا ہوں نہ سمجھایا گیا ہوں
بڑی الجھن میں الجھایا گیا ہوں


سبب پوچھو نہ میری تشنگی کا
اک اک قطرے کو ترسایا گیا ہوں


مجھے جو دیکھتے ہو اس زمیں پر
فلک سے توڑ کر لایا گیا ہوں


کہاں اب ڈھونڈتے ہو خاک میری
ہوا کے ساتھ ہی آیا گیا ہوں


سزائیں مجھ کو کیسی مل رہی ہیں
میں مجرم کس کا ٹھہرایا گیا ہوں


شعور آئے کہاں سے میرے اندر
غلط جو راہ دکھلایا گیا ہوں