مجھے زبان ضرورت تھی اک صدا کے لیے

مجھے زبان ضرورت تھی اک صدا کے لیے
کوئی نہ تھا مرے احباب میں وفا کے لیے


میں تیرے ہجر میں ہی مر گیا تھا میری جاں
یہ زندگی میں جیا ہوں فقط سزا کے لیے


مجھے نہیں ہے ضرورت یہ عیش و عشرت اب
تڑپ رہا ہے یہ دل بس تری ادا کے لیے


ترا ہی نقش ابھرتا رہا لکیروں میں
اٹھائے ہاتھ جو میں نے کبھی دعا کے لیے


سمجھ نہیں مجھے آتا یہ فلسفہ احمدؔ
کسی کے در پہ ہیں کیوں مانگتے خدا کے لیے