اک محبت تھی جو تھی ترتیب میں
اک محبت تھی جو تھی ترتیب میں
ورنہ شے تھی کب کوئی ترتیب میں
ہم تجھے کیسے بناتے ہم سفر
ہم جیے تھے زندگی ترتیب میں
موت کا کچھ ڈر نہیں ہوتا مجھے
زندگی میری کٹی ترتیب میں
اب تو اپنے عشق کا قصہ سنا
داستاں اپنی تو تھی ترتیب میں
دل سے اس کی یاد کو رخصت کرو
تاکہ آئے زندگی ترتیب میں
تاکہ اب اپنا نشیمن بن سکے
خود کو لے آ تو کسی ترتیب میں
وقت پر تاروں نے چھوڑا آسماں
رات دن میں ڈھل گئی ترتیب میں
نام تیرا اور مرا جوڑا گیا
اور آئی ہر خوشی ترتیب میں
چھوڑ احمدؔ اب یہ بے ترتیبیاں
خود کو اب لے آ کسی ترتیب میں