مدتوں بعد جو ہم شہر میں کل آئے ہیں
مدتوں بعد جو ہم شہر میں کل آئے ہیں
خیر مقدم سے بھرے رد عمل آئے ہیں
کیا گنہ گاروں کی فہرست ہے آنے والی
کس لیے آپ کی پیشانی پے بل آئے ہیں
وصل ہی وصل ہے اب ہجر جہاں لکھا تھا
قصۂ عشق کا عنوان بدل آئے ہیں
سب کو یہ منظر شب تاب دکھایا کس نے
آج کل سب کے دماغوں میں خلل آئے ہیں
پیچھا کرتے ہوئے ہم ایک غزل کا کل رات
میرؔ کی دلی سے پنجاب نکل آئے ہیں
اس کو اب کرنا ہو جو ترک تعلق کر لے
ہم ملال دل بیتاب اگل آئے ہیں
حضرت قیس ہیں ہم زاد ہمارے دلبرؔ
ہم سے ملنے کے لیے پہلے پہل آئے ہیں